قلعہ یورپ: انسداد دہشتگردی اور ساحلوں سے ٹکراتی انسانی لہریں

شمارہ ٩Eng | Issue 9

Artist: Madiha Hyder

Artist: Madiha Hyder

“ہم سمںدر کا سینہ چیر کر یہاں پہںچے’ فقط یہ جاننے کیلیۓکہ کوئ نہیں چاھتا کہ ھم یہاں آئیں ٌ۔

― نییرہ وحید

جس وقت قلعہ یورپ سرحدوں کے تحفظ بلکہ انہیں بںد کرنے کیلیۓ رقم خرچ کرتا ہے’جب سیاست اور انتخابات جیتنے کی بنیاد مھاجرین کی تعداد گھٹانے پر آ جاۓ’ جب برطا نیہ ہیومن رائتس کے بخیے ادھیڑنے کے بہانے سرحدی معاملات میں ڈھوںڈھے تو پناہ گزینوں کی خبر گیری کو محض عام شیہری ہی رہ جاتے ہیں۔ 

اس سال کے اوائل میں پیرس میں میری ملاقات ایک ایسے دانشور سے ہوئ جو کبھی اپنا وطن ترک کر کے پر خطر راستوں سے گزر کر یورپ آیا اور قانونی پیچیدگیوں سے گزرنے کے بعد نۓ سرے سے زںدگی کا آغاز کرنے کے حقوق حاصل کیے۔ شہر کے عرب اکثریتی حصے میں ایک کیفے میں کافی پیتے ہوۓ اس نے مجھے عام شھریوں کے ایسے گروپوں کے بارے میں بتایا جو شام کے شورش زدہ علاقوں سے ہجرت کر کے آنیوالوں کو یہاں تعاون اور پناہ فراہم کر رھے ھیں۔ میرے علم میں یہ بات پہلے بھی لائ گئ تھی کہ سیںٹرل پیرس میں سیںکڑوں شہری پارکوں میں کھلے آسمان کے نیچے رات بسر کرنے پر مجبور ھیں۔ وہ سب مختلف راستوں سے یہاں پہںچے’ کچھ ادھار لیکر اور کچھ اپنا سب کچھ بیچ باچ کر۔ 

‘آنیوالوں کی اکثریت بچوں پر مشتمل ھے جو اپنے زںدہ بچ جانیوالے والدین یا دیگر بڑوں کے  ساتھ ہیں’، شناخت ظاھر نہ کرنے کی شرط پر اس دانشور نے مجھے بتایا۔ ‘یہ بچے جب فرانس پہںچتے ہیں تو خوفزدہ ہوتے ہیں اور اکثر فاقہ زدہ بھی۔ انکو کھانا تھمایا جاۓ تو انکی آںکھیں بے یقینی سے کھلی رہ جاتی ھیں۔’

جب یہ پناہ گزین پیرس پہںچتے ہیں تو یہاں کچھ شہری ان کا رابطہ کچھ ہمدردانہ جذبات رکھنے والے گیسٹ ہاؤس مالکان سے کرواتے ھیں جو ایک دو راتوں کیلیے دس تک افراد کو ایک کمرا دے دیتے ہیں’ تاکہ وہ آگے جانے سے پھلے کچھ دیر قیام کر لیں۔ 

‘یہ لوگوں کا ایک غیر رسمی سا گروہ ھے جہ مل کر کام کرتے ہیں اور آپس میں رابطہ بھی مختصر سا رکھتے ہیں۔ آپ ایک نظر سے ان پناہ گزینوں کے بارے میں وہ سب جان سکتے ہیں جو آپ جاننا چاہتے ہیں۔ بات اتنی سی ہے کہ انہیں مدد کی ضرورت ھوتی ہے۔’

یہ گروہ خود کفیل طور پر کام کرتے ہیں اور اپنے وسائل سے پناہ گزینوں کو سہولت پہںچاتے ہیں۔ رقم کاانتظام مشکل سے ھوتا ھے اور یہ خرچ بھی جلد ہو جاتی ہے’ مگر یہ لوگ اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ کبھی کبھار انکو اور شہریوں سے کچھ چںدہ بھی مل جاتا ھے۔’

———————————————————————————————————————————

وقف نہیں۔ خیرات نہیں۔ بیرونی امداد نہیں۔ صرف آپکی مدد درکار ہے۔

سبسکرائب کیجیے یا چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

ہم بھوت لگتے ہیں

ایسے ہی ایک گروہ سے وابستہ ایک عورت نے بتایا ‘وہ شامی جو یہاں پہںچ پاتے ہیں’ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ اپنا سفر جاری رکھیں۔ وہ فراںس نہیں رہنا چاھتے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ ملک انکا اور انکے حقائق کا مخالف ھے۔ انکی کوشش ہوتی ھے کہ پہلی ٹرین پکڑ کر جرمنی’ سویڈن یا کسی ایسی جگہ پہںچ جائٰیں جہاں وہ نئے سرے سے وہ اپنی زںدگیوں کی ابتدا کر سکٰیں۔ مجھے بتایا گیا کہ ٹکٹ چیکر اور ٹریفک پولیس بھی ایسے لوگوں سے صرف نظر کرتے ہیں اگر وہ فراںس سے کہیں اور جا رھے ہوں۔ یوں وہ کسی اور ملک کا مسئلہ بن جاتے ہیں۔

میری تین نوجوان شامی خواتین سے ملاقات ہوئ جو ابھی ابھی فراںس پہںچیں’ وہ پریشان حال تھیں’ مسلح پولیس افسروں کو دیکھ کر خوفزدہ ھو جاتی تھیں۔ انکی عمریں بیس کے لگ بھگ ھوںگی اور یہ طالبات تھیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ پانچ ماہ قبل شام سے نکل آئ تھیں۔ انہوں نے کاروں’ ٹرکوں اور کشتیوں کے ذریعے’ اور انسانی سمگلروں کی مدد سے یورب بھر کا سفر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اپنا ملک چھوڑنے کے سوا انکے پاس کوئ چارہ نہ تھا۔ میڈیکل کی طالبہ یسرا نے بتایا ‘آپ یوں سمجھیں میں دمشق سے ہوں۔ میں اپنے اصل شہر کا بتا کر خود کو اور کسی اور کو مشکل میں ڈالنا نہیں چاھتی۔ تمام دنیا جانتی ھے کہ شامیوں پر کیا بیت رہی ھے۔ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی کوئ کچھ نہیں کرنا چاہتا۔ وہ ھماری حالت تو دیکھیں’ کیا ہم بھوت نہیں لگتے؟’

امل نے جو خود بھی ایک طالبہ ھے، یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی کوششوں کے بارے میں بتایا ‘مجھے بار بار اپنی مشکلات اور تلخ تجربات یاد رکھنے اور دہرانے پر مجبور کیا جاتا ہے’ پھر بھی لوگوں کو یقین نہیں آتا۔ مجھے بار بار یہ ثابت کرنے کا کہا جاتا ہے کہ مجھے بھی جینے کا حق ھے’ اور یہ بھی حق ھے کہ ایسے ملک میں زںدگی گزاروں جہاں کوئ میرے بارے میں کچھ نہ جانتا ہو۔ ایسے لوگوں کے درمیان جو میرے جسم پر زخموں نشانات سے ناواقف ہوں۔ میرا یقین کریں یہ زخم اس گھاؤ سے زیادہ نہیں جو میں اپنے اںدر چھپائے پھرتی ہوں۔’

ایک تیرتا قبرستان

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 2000 سے ابتک 23 ہزار لوگ یورپ آنے کی کوشش میں مارے جا چکے ہیں۔ میڈی ٹیرینین سی کے کئی حصے تیرتے ہوئےقبرستان لگتے ہیں جہاں اٹلی، لیبیا اور یونان کے ساحلی محافظ روزانہ تیرتی لاشوں کا حساب کتاب رکھنے میں مصروف ھیں۔ 

گزشتہ چںد ماہ میں ان لدی’ سمںدری لہروں پر ہچکولے کھاتی کشتیوں کی تصاویر دنیا کے کونے کونے میں پہںچی ہیں۔ ان کشتیوں کے سوار خود کو تیرتے تابوت سمجھتے ہیں۔ کوی نہیں جانتا کہ یورپ جاننے کی کوشش میں یہ انہی کشتیوں کے اںدر مر جائیں گے یا پھر سمںدر میں ڈوب جاٰئیں گے۔ 

‘ہمارے پاس اس کے سوا کوی چارہ نہیں’ یا تولاشوں کی طرح زںدہ رہیں یا زںدگی کا خطرہ مول لیں۔ اگر آپ جیتے جی پہلے ہی مر چکے ہوں تو کوئی خطرہ معنی نہیں رکھتا’۔ ایک شامی نے تنقید کو بتایا۔ جوں جوں جںگ اور عدم استحکام شام’لیبیا اور شمالی افریقہ کو گیھیرے میں لے رہی ھے’ اور حل نا پید ہوتے جا رھے ہیں’ پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رھا ہے۔ 

یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کے مطابق 10 جون تک سمندر میں پناہ گزینوں کی اموات کی تعداد 1865 تک ہو گئی ہے جس میں 1816 اٹلی پہںچنے کی کوشش میں مارے گئے۔ مرنے سے بچ جانیوالوں کی اکثریت کو سمندری محافظ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ یہ اس وقت ہو رھا ھے جب برطانیہ کی حمایت سے یورپی یونین نے فیصلہ کیا کہ سمندر کے اندر کسی قسم کی مدد یا تحفظ کے بجائے صرف ساحلوں پر ھی محافظ تعینات کیے جائیں۔ ایسے فیصلے کا مقصد پناہ کیلیئے آنیوالوں تک پیغام پہںچانا تھا کہ کشتی ڈوبنے سمیت دیگر خطرات کی صورت میں مدد کو کوی نہیں آئگا۔ 

یہ پناہ گزین اپنے ملکوں میں جںگوں اور بد حالی سے بچ کر انسانی سمگلروں کے ہاتھوں سرحدیں پار کر ے پہںچتے ہیں۔ مسلح جتھے ان سے ہزاروں ڈالر اور قیمتی اثاثے ہتھیا لیتے ہیں۔ ایسے مسلح گروہوں نے ان پناہ گزینوں کی بد حالی اور بد قسمتی پر اپنی قسمات چمکا لی ھے۔ پھر بھی پناہ گزینوں کا یہ مشکل سفر انہیں زںدگی کی ضمانت نہیں دیتا۔ اس سال 6 اور 7 جون کو 6 ہزار لوگوں کو ڈوبنے سع بچانے کیلیئے 48 گھنٹوں پر محیط سب سے بڑا ریسکیو آپریشن کیا گیا۔ شاید یہ ایسا ریکارڈ ھے جو جلد ٹوٹنے کو ھے۔ 

———————————————————————————————————————————

یہ مضمون آپ تک پہنچنے کے لیے ہمارے خون پسینے کے علاوہ روپیہ پیسہ بھی خرچ ہوا ہے۔

سبسکرائب کیجیے یا چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

زندگی کا تحفظ مگر پناہ کی قیمت پر؟

یہ پناہ گزین بہر حال انسان ہیں’ یہ وہ حقیقت ہے جو میڈیا مسخ کر دیتا ھے۔ سنسنی خیز سرخیاں اس انسانی المیے کو مہاجرین کے بحران کے طور پر پیش کرتی ہیں اور ان پناہ گزینوں کو انتہا پسند، اسلام پسند اور سکیورٹی رسک کے طور پر دکھاتی ہیں۔ اس طرح حقیقت کو مسخ کرنے کا چلن تاریخی ہے جس کے ذریعے ایک طرف زیر عتاب انسانوں کو انکی انسانیت سے محروم کر دیا جاتا ھے تو دوسری طرف عوام کو ان حقیقتوں سے بے حس کر دیا جاتا ہے۔ 9-11 کے بعد کے سالوں میں مظلوم شہری جو خود ساختہ اسلامک سٹیٹ’ القائدہ اور دیگر مسلح گروہوں سے بھاگ کر نکلے’ اب خود سکیورٹی رسک سمجھے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق شام کی شورش سے 12 ملین انسان بے گھر ہوے جن میں سے 4 ملین کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ برطانیہ نے تب سے ابتک صرف 187 شامیوں کو ملک میں رھنے کی اجازت دی ہے’ وہ بھی اقوام متحدہ کے تعاون سے۔  

اقوام متحدہ کے آبادکاری پروگرام نے یورپ سے مطالبہ کیا ہے کہ 30 ہزار شامیوں کو رھنے کے حقوق دیے جائیں۔ برطانیہ شام کے عیسائی شھریوں کو’ جو اپنی مذھبی شناخت کی وجہ سے سب سے زیادہ زیر عتاب ہیں’ کو ترجیح دے رھا ھے۔ ایسا امتیازی منصوبہ افریقی اور عرب مسلمانوں کو مجرم کے طور پر پیش کرتا ھے اور یہ تاثر دیتا ھے کہ انکی زندگیاں عیسائیوں کی زندگیوں جتنی اھم نھیں۔ المیہ یہ ہے کہ دھشتگرد بھی یہی سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق بہت سارے مسلمان صحیح مسلمان نہیں۔ جبھی تو وہ شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں جو ان کے فہم اسلام سے اتفاق نہیں رکھتے۔ 

مئی میں یورپی یونین نے اعلان کیا  کہ وہ ان افریقی ممالک کہ زیادہ امداد دیگا جو ان پناہ گزینوں کو وطن چھوڑنے اور یورپ کی طرف روانہ ہونے سے روکیں گے۔ یورپ یہ چاھتا ہے کہ لوگ جنگ کے باوجود اپنے گھروں کو واپس چلے جاٰئیں۔ ان پناہ گزینوں کے راستے میں پڑنے والے ملکوں کہ بھی امداد دی جا رھی ھے تاکہ وہ انہیں قلعہ یورپ میں داخل ہونے سے روکیں۔ امداد کو ان خستہ حال اور پر خطر رستوں سے چل کر آنیوالوں کی بہتری کے بجائے قلعہ یورپ کی فصیلوں کو مضبوط کرنے پر خرچ کیا جا رھا ھے۔ 

دریں اثنایورپی راہنما یہ دکھا رہے ہیں کہ انکی اخلاقی برتری ابھی بھی قائم ہے۔ اپریل میں اٹلی کے وزیراعظم نے ہجرت کے اس عمل کہ ‘غلاموں کی نئی تجارت’ اور انسانی سمگلنگ کہتے ہوئے اس کی مذمت کی ھے۔تاہم وہ اور انکے دیگر یورپی ہم منصب اس انسانی سمگلنگ میں اپنے کردارکا احاطہ  کرنا بھول جاتے ہیں۔ انسانوں کی یہ سمنگلنگ اور تجارت آخر ایسی پالیسیوں کے نتیجے میں ھو رھی ہیں جو مصیبت زدہ انسانوں پر پناہ کے دروازے بند کر دیتی ہیں۔ 

شائستہ عزیز آزادانہ طور پر کام کرنے والے صحافی ہیں ۔     

Tags: ,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *